سرخ کھردرے کمبل میں عطاء اللہ نے بڑی مشکل سے کروٹ بدلی اور اپنی مندی ہوئی آنکھیں آہستہ آہستہ کھولیں۔ کہرے کی دبیز چادر میں کئی چیزیں لپٹی ہوئی تھیں جن کے صحیح خدوخال نظر نہیں آتے تھے۔ ایک لمبا، بہت ہی لمبا، نہ ختم ہونے والا دالان تھا یا شاید کمرہ تھا جس میں دھندلی دھندلی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ ایسی روشنی جو جگہ جگہ میلی ہورہی تھی۔ دور بہت دور، جہاں شاید کمرہ یا دالان ختم ہو سکتا تھا، ایک بہت بڑا تھا جس کا دراز قد چھت کو پھاڑتا ہوا باہر نکل گیا تھا۔ عطاء اللہ کو اس کا صرف نچلا حصہ نظر آرہا تھا جو بہت پُر ہیبت تھا۔ اس نے سوچا کہ شاید یہ موت کا دیوتا ہے جو اپنی ہولناک شکل دکھانے سے قصداً گریز کررہا ہے۔ عطاء اللہ نے ہونٹ گول کرکے اور زبان پیچھے کھینچ کر اس پُر ہیبت بت کی طرف دیکھا اور سیٹی بجائی، بالکل اس طرح جس طرح کتے کو بلانے کے لیے بجائی جاتی ہے۔ سیٹی کا بجنا تھا کہ اس کمرے یا دالان کی دھندلی فضا میں ان گنت دُمیں لہرانے لگیں۔ لہراتے لہراتے یہ سب بہت بڑے شیشے کے مرتبان میں جمع ہوگئیں جو غالباً اسپرٹ سے بھرا ہوا تھا۔ آہستہ آہستہ یہ مرتبان فضا میں بغیر کسی سہارے کے تیرتا، ڈولتا اس کی آنکھوں کے پاس پہنچ گیا۔ اب وہ ایک چھوٹا سا مرتبان تھا جس میں اسپرٹ کے اندر اس کا دل ڈبکیاں لگا رہا تھا اور دھڑکنے کی ناکام کوشش کررہا تھا۔ عطاء اللہ کے حلق سے دبی دبی چیخ نکلی۔ اس مقام پر جہاں اس کا دل ہوا کرتا تھا، اس نے اپنا لرزتا ہوا ہاتھ رکھا اور بے ہوش ہوگیا۔ معلوم نہیں کتنی دیر کے بعد اسے ہوش آیا مگر جب اس نے آنکھیں کھولیں تو کہرا غائب تھا۔ وہ دیوہیکل بت بھی۔ اس کا سارا جسم پسینے میں شرابور تھا اور برف کی طرح ٹھنڈا۔ مگر اس مقام پر جہاں اس کا دل تھا، ایک آگ سی لگی ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔ اس آگ میں کئی چیزیں جل رہی تھیں، بے شمار چیزیں۔ اس کی بیوی اور بچوں کی ہڈیاں تو چٹخ رہی تھیں، مگر اس کے گوشت پوست اور اس کی ہڈیوں پرکوئی اثر نہیں ہورہا تھا۔ جھلسا دینے والی تپش میں بھی وہ یخ بستہ تھا۔ اس نے ایک دم اپنے برفیلے ہاتھوں سے اپنی زرد رو بیوی اور سوکھے کے مارے ہوئے بچوں کو اٹھایا اور پھینک دیا۔۔۔۔۔۔ اب آگ کے اس الاؤ میں عرضیاں کے پلندے کے پلندے جل رہے تھے۔۔۔۔۔۔ ہر زبان میں لکھی ہوئی عرضیاں۔ ان پر اس کے اپنے ہاتھ سے کیے ہوئے دستخط، سب جل رہے تھے، آواز پیدا کیے بغیر۔ آگ کے شعلوں کے پیچھے اسے اپنا چہرہ نظر آیا۔ پسینے سے۔۔۔۔۔۔ سرد پسینے سے تربتر۔ اس نے آگ کا ایک شعلہ پکڑا اور اس سے اپنے ماتھے کا پسینے پونچھ کر ایک طرف پھینک دیا۔ الاؤ میں گرتے ہی یہ شعلہ بھیگے ہوئے اسفنج کی طرف رونے لگا۔۔۔۔۔۔ عطاء اللہ کو اس کی یہ حالت دیکھ کر بہت ترس آیا۔ عرضیاں جلتی رہیں اورعطاء اللہ دیکھتا رہا۔ تھوڑی دیر کے بعد اس کی زرد رو بیوی نمودار ہوئی۔ اس کے ہاتھ میں گندھے ہوئے آٹے کا تھال تھا۔ جلدی جلدی اس نے پیڑے بنائے اور آگ میں ڈالنا شروع کردیے جو آنکھ جھپکنے کی دیر میں کوئلے بن کر سلگنے لگے۔ انھیں دیکھ کر عطاء اللہ کے پیٹ میں زور کا درد اٹھا۔ جھپٹا مار کر اس نے تھال میں سے آخری پیڑا اٹھایا اور منہ میں ڈال لیا۔ لیکن آٹا خشک تھا۔ ریت کی طرح۔ اس کا سانس رکنے لگا اور وہ پھر بے ہوش ہوگیا۔ اب اس نے ایک بے جوڑ خواب دیکھنا شروع کیا۔ ایک بہت بڑی محراب تھی جس پر جلی حروف میں یہ شعر لکھا تھا روز محشر کہ جاں گداز بود اولیں پرسش نماز بود وہ فوراً پتھریلے فرش پر سجدے میں گر پڑا۔ نماز بخشوانے کے لیے دعا مانگنا چاہی مگر بھوک اس کے معدے کو اس بری طرح ڈسنے لگی کہ بلبلا اٹھا۔ اتنے میں کسی نے بڑی بارعب آواز میں پکارا: ’’عطاء اللہ!‘‘ عطاء اللہ کھڑا ہوگیا۔۔۔۔۔۔محرابوں کے پیچھے۔۔۔۔۔۔ بہت پیچھے، اونچے منبر پر ایک شخص کھڑا تھا۔ مادر زاد برہنہ، اس کے ہونٹ ساکت تھے مگر آواز آرہی تھی۔ ’’عطاء اللہ! تم کیوں زندہ ہو؟ آدمی صرف اس وقت تک زندہ رہتا ہے جب تک اسے کوئی سہارا ہو۔۔۔۔۔۔ ہمیں بتاؤ، کوئی ایسا سہارا ہے جس کا ?%A